راجہ رام موہن رائے
Pic source:Google |
راجہ رام موہن رائے کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ۔ وہ انیسویں صدی میں اپنی فکر ونظر کا ایک انمٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں۔ ان سے ہندوستانیوں کو بھی روشنی ملی ہے۔ ۲۲ رزئی اے نے ان کو منگل کے دن رادھا نگر میں پیدا ہوئے ۔ ماں کا نام نارینی دیوی اور پیا کا نام را با کانت رائے ہے۔ والدین کر ہندومت کے ماننے والے تھے۔ ان کا تعلق بنگال کے نواب سے تھا اور وہیں ان کی ملازمت بھی تھی لیکن نواب کے مزان سے پریشان بھی تھے ۔ ان کا زیادہ وقت پوجا، گیان ، دھیان میں گزرتا تھا۔
Pic source:Google |
پن سے ہی بہت ذہین اور ہوشیار تھے۔ اس زمانے میں سرکاری نوکری کے لئے قاری
کا جانا ضروری تھا اس لئے قاری بھی اچھی خاصی سیکھ لیا۔ بنگلہ تو خیر ان کی مادری
زبان تھی ہی اس میں ان کو کمال حاصل تھا۔ چونکہ ان کے زمانے میں عربی کا علم بہت
ضروری تھا اس لئے راجہ رام موہن رائے نے اس زبان میں بھی کمال حاصل کرلیا۔ عرب
تعلیم کے لئے راجہ رام موہن رائے پین بھی گئے ۔ پٹنہ میں اپنے قیام کے دوران انہوں
نے قرآن شریف کا بھی مطالعہ کیا۔ سنسکرت کی تعمیل کے لئے بنارس گئے وہاں سنسکرت
زبان سیکھی اور ہندو مذہب کی کتابوں کا طرز احسن مطالعہ کیا۔ انہیں بت پرستی سے
کوئی لگاؤ نہ تھا۔ اب وہ ایک خدا کی ذات پر کامل یقین رکھتے تھے۔
Pic source:Google |
گھر کے لوگوں کو اُن کا بدلا ہوا خیال پسند نہیں آیا انہوں نے گھر چھوڑ دیا ۔ وہ تبت بھی گئے اور بودھ مذہب کا مطا کیا۔ اس کے بعد انگریزی کا ذکر بھی ضروری ب ای سال کی عمر میں انگریزی پڑھنا شروع کیا اور اس زبان میں اتنی مہارت پیدا کر لی کہ انگریزی میں کئی کتابیں لکھیں اور اپنے خیالات کا لیا رکیا۔
راجہ رام موہن رائے تھی کی رسم کے سخت مخالف تھے کیوں کہ ان کی بھابھی ان کے سامنے تی ہوئی تھیں ۔ انہوں نے طے کر لیا کہ یہ رسم نہایت بری ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں کئی لوگوں سے ان کا مذاکرہ بھی ہوا۔ بعد ازاں برہمو سماج کے نام سے انہوں نے ایک انمن قام ی۔ یا ۱۸ ء میں انگریزوں نے ستی کے خلاف قانون بنایا۔ ہندوستان نے اس ی مخالفت کی ۔ راجہ صاحب نے انگریزوں سے اس سلسلے میں گفتگو کی لارڈ بینک کی مدد سے ایک خت قانون بنانے میں کامیاب ہوئے تا کہتی کی رسم روکی جا سکے۔
Pic source:Google |
برطانوی حکومت نے ۱۸۳۹ ء میں انہیں سب کے خطاب سے نوازا۔ راجہ رام موتان را انگلستان بھی گئے ۔ سرسید احمد خان کی طرح انہوں نے بھی انگریزوں کے طرز معاشرت ک ا رولیا وبان اس زمانے میں جو صاحب علم تھے ان سے کئی موضوعات پر بات چیت بھی کی ۔ وہ عیسائیوں کی عیادت کانوں میں بھی جاتے تھے ان کے اندر کوئی بھید بھاؤ نہیں تھا وہ کھلے ذہن کے ایک شریف آدمی تھے۔ سے ۲ بر ۱۸۳۳ ء میں ان کی انتقال ہو گا ان کو انگلستان کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔
0 Comments