سرسید احمد خان|Sir Syed Ahmed Khan | Sir Syed Ahmed Khan quotes | Sir Syed Ahmed Khan political services | Sir Syed Ahmed Khan pdf | Sir Syed Ahmed Khan in urdu | Sir Syed Ahmed Khan in hindi | Sir Syed Ahmed Khan family | Sir Syed Ahmed Khan essay in english | Sir Syed Ahmed Khan education |

سرسید احمد خان
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان کی ذات گرامی مشہور زمانہ ہے۔ انگریزوں ک و حکومت میں مسلمان اور بھی پستی کی جانب جارہے تھے، ان کا مستقبل دن بدن تار کیا ہوتا جارہا تھا سرسید احمد خان نے اس بات کوحسوس کیا کہ اگر مسلمانوں کولم کی طرف ا ک یا ون درنی جب قوم تباہ و برباد ہو جائے گی۔ دینی تعلیم کے علاوہ انہوں نے خاص طور سے اس بات کی بھی کوشش کی کہ مسلمان عصری تعلیم میں بھی بہرہ مند ہوں ۔ اس راہ میں ان کے ساتھ بڑی مشکلیں بھی پیش آئیں، کسی نے انہیں نیچری کہا مگر سرسید اپنے حسن کے پکے ثابت ہوئے اور اپنا کام آگے بڑھاتے رہے۔ آن جولی گڑھ مسلم یونیورٹی نظر آرہی ہے وہ سر سید احمد خان کی نی دین ہے۔ 
Sir syed Ahmed Khan

۱۷,ا کتوبر ۱۸۱۷ ء میں سرسید دہلی میں پیدا ہوئے ، تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے آباو اجداد شا عبد میں دہلی آئے اور سکونت اختیار کیا۔ ان کے والد کا نام میرتقی تھاجو بہت ہی تھی اور پرہیز گار کمی تھے، ان کی شخصیت میں قناعت پسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی سرسید کی تعلیم میں ان کی ماں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رکھا۔ آپ نے عربی اور فارسی کی اعلی تعلیم حاصل کی ۔ ذہین تو بچپن ہی سے تھے اس پر ماں کی تربیت کا اثر ایسا ہوا کہ باکمال ہوگے ۔ نہایت ہی خوش خلق اورانسا آدمی تھے۔ جب آپ ک رافی سال کی تھی اس وقت والد کا اتقال ہوگیا۔

 تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ایسٹ انڈیا مپنی میں ملازمت اختیار کر لی۔ ء میں جب ہندوستان میں جنگ آزادی لڑی جارہی تھی اس وقت سرسید احمد خان بجنور میں تھے اور نبی کے اعلی عہدے پر فائز تھے۔ ۱۸۵۷ ء میں بہت سے انگریز مارے گئے ۔ کتنوں کو سرسید احمد خان نے اپنی دانش مندی سے بچایا۔ آپ نے انگریزوں کا ساتھ ملا دیا۔ آپ کو حکومت وقت کی جانب سے"سر" اور "خاں بہادر" کے خطاب بھی دیئے گئے۔
Sir syed Ahmed Khan
 
سرسید نے محسوس کر لیا کہ قوم نے انگریزوں کو نکالنے کا جو منصوبہ بنایا ہے وہ ناکافی ہے۔ اس سے خود ہندوستانیوں کو نقصان پہ نچے گا۔ انہوں نے ی و کیا کہ انگریزوں کو کسی اور طریقے سے ملک بدر کیا جاسکتا ہے لیکن موجودہ طریقیا کی نگاہ میں قطعی غیر مناسب اور احمقانہ تھا۔ اس بات کی تصدیق یوں بھی ہو جاتی ہے کہ اس کے بعد ہندوستانی قوم کواس قدر نقصان پہنچا۔ 

سرسید نے مسلمانوں کی تعلیمی پستی کا بغور جائزہ لیا۔ اس وقت مسلمانوں کی حالت دگرگوں تھی۔ انگریزی تعلیم سے انہیں مولویوں نے بند کر دیا تھا۔ مغربی علم کا سیکھنا ان کے لیے گناہ تھا۔ علماء نے انی ب د اور لامذہب کہا۔ مگر آپ نے محسوس کیا کہ بغیر مغربی تعلیم حاصل کیے مسلمان ترقی نہیں کر سکتا ان کے دل میں قوم کا درد تھا۔ جہالت دور کرنے لیے اصلانی کوششیں بھی کیں ۔ ۱۸۷۲ ء میں غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کے قیام کا مقصد انگریزی کی مستند کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا۔ سرسید غازی پور سے علی گڑھ آئے اور سوسائٹی بھی وہیں قتل کر دی۔ انہوں نے ایک رسال علی گڑمسلم انسٹی ٹیوٹ نام ے جاری کیا-
Sir syed Ahmed Khan
 سرسید انگلستان گئے ، وہاں انہوں نے انگریز قوم کی طرز معاشرت، ان کی تعلیم کا طریقہ ان کے اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کے جائزے لیے اور واپس آ کر اپنا رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ جس میں مشاہیر اہل قلم کے علا و خودسرسید احمد خان بھی ملی ، معاشرتی اور اخلاقی مضامین لکھتے تھے۔ اس رسالے نے بڑا کام کیا ۔ اس وقت شہر خیالات کا یہ بہت بڑاذرایہ ثابت ہوا۔ ۱۸۷۵ ء م گڑ ا ی ا ی ور رنتق کر کے اب بی کالج یونیورسٹی بن گیا ے جہاں ہر طرح کی اعلی کا کام ہے۔ پہلے ان کی بڑی مخالفت ہوئی مسلمانوں نے ان کا بائیکاٹ کیا۔ 

سر سید کے معاو مین اور مددگاروں میں حالی شبلی اور نواب محسن الملک کے اسمائے گرامی تقابل ذکر ہیں ۔ ان حضرات نے بھی مغربی تعلیم کی ضرورت کو محسوس کیا آج مسلمانوں کی پستی کا جو حال ہے سب لوگ دیکھ رہے ہیں لیکن جوتھوڑی بہت تعلیم نظر آرہی ہے وہ سر سید کی نی دین ہے۔ 
آپ کی شخصیت نہایت عظیم ہے آپ ظاہری شان و شوکت نام ونمود سے بہت دور تھے۔

 آپ کا ی کی ش ی اشتای آپ کو اپنے مقصد میں کامیاب کیا۔ آج بھی میں سرسید کی ضرورت ہے لیکن آج کوئی ای مخلص نظر نہیں آتا۔

Post a Comment

0 Comments