تیرہ سال کی عمر میں کستوربا سے ان کی شادی ہوگئی ۔ ان کی عمربھی لگ بھگ اتنی ہی تھی ۔ ان کی از دواری زندگی باسٹھ سال تک نہایت خوشگوار رہی۔
وہ انگلینڈ گئے اور وکالت کا امتحان پاس کیا۔ وہاں انھیں انگریزی لباس کا شوق بھی ہوا ، استعمال بھی کیا۔ یورپی تہذیب کے مطابق ڈانس بھی کیا کرتے تھے مگر انگلستان جانے سے قبل انھوں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ شراب، گوشت اور عورتوں سے دور رہیں گے۔ انھیں ماں سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا۔ چنانچہ یہ ساری چیز میں چھوڑ دیں اور بے تکلف سادہ زندگی گزارنے پر آمادہ ہوئے ۔ پہلے کش ہوٹلوں میں کھانا بھی کھاتے تھے، وہ بھی چھوڑ دیا۔
جنوبی افریقہ میں گورے اور کالے کا جھگڑا تھا، نفرت تھی اور انگریز ( گورے) ان پر مظالم ڈھاتے تھے ۔ غیر منصفانہ باتیں تھیں، وہ ہندستانی جو افریقہ میں مقیم تھے، انھوں نے گاندھی جی سے اس کا تذکرہ کیا۔ گاندھی جی نے ان کے مسائل پر غور کیا اور ان کی مدد کے لیے افریقہ گئے۔ وہاں انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی گئی ۔ انگریزوں کو شکست ہوئی۔
اس طرح گاندھی جی ساری دنیا میں مشہور ہو گئے ۔ ۱۹۱۵ء میں احمد آباد کے قریب سابرمتی آشرم بنوایا ضلع چمپارن میں نیل کی کھیتی کرنے والے کسانوں سے انگریز خوش نہ تھے اور ان پرظلم کرتے تھے۔ کاشتکاروں نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی۔ گاندھی جی نے مداخلت کی اور ان کے معاملات طے ہو گئے ۔ ۱۹۳۰ء میں گاندھی جی نے ملک کے قانون کے خلاف لڑائی کی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزوں کو ہندستانیوں کونمک تیار کرنے کی آزادی دینی پڑی۔
انھیں چھوت چھات سے نفرت تھی۔ جوا چھوت تھے انھیں گاندھی یا ہرین کا نام دیا ۔ ان پر مندروں کے دروازے کھلوائے ۔ کنواں سے اب وہ بھی پانی لینے لگے۔
ادھر سارا ہندستان انگریزوں کے عتاب کا شکار تھا۔ ہندستان میں رہنے والوں کو آزادی کا خیال ہوا۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی غرض سب متحد ہو گئے اور گاندھی جی کی قیادت میں آزادی کی تحریک زور پکڑتی گئی تحریک عدم تشدد تحریک عدم تعاون تر یک ترک موالات غرض ساری تحریکیں انگریزوں کے خلاف ہندستان میں شروع ہوگئیں۔
لیکن افسوس کی بات ہے کہ ملک دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ مسلمانوں نے پاکستان پسند کیا۔ ادھر ہندستان کی تشکیل ہوئی۔ یہ بڑارہ بھی انگریزوں کی چال ہے۔ اس سے بڑا نقصان ہوا۔ بڑارہ کے نتیجے میں کافی خون خرابہ ہوا۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ۔ بڑی کوششوں سے حالات سازگار ہوئے تقسیم کے بعد گاندھی جی نے اپنے لیے کوئی عہدہ پسند نہ کیا مگر لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرتے رہے۔
قوم کا بینظیم سپاہی آخر کار ۱۳۰ جنوری ۱۹۴۸ء کو ایک ظالم شخص ناتھو رام گوڈسے کے ہاتھوں مارا گیا۔ انھوں نے صرف ’’ ہے رام کہا اور جان، جان آفریں کے سپرد کر دی۔
👇مزید پیراگراف کے لئے نیچے دیکھیں
0 Comments